EN हिंदी
دیکھتی آنکھوں نے دیکھا ہے شبستانوں میں | شیح شیری
dekhti aankhon ne dekha hai shabistanon mein

غزل

دیکھتی آنکھوں نے دیکھا ہے شبستانوں میں

میلہ رام وفاؔ

;

دیکھتی آنکھوں نے دیکھا ہے شبستانوں میں
جذبہ مرنے کا ابھی زندہ ہے پروانوں میں

کتنا پر ہول ہے ماحول شب فرقت کا
خون بھی خشک ہوا جاتا ہے شریانوں میں

کام آیا نہ گلا پھاڑنا اے شیخ ترا
نظر آتی ہیں وہی رونقیں مے خانوں میں

ستم تازہ پہ یوں شکر ستم کرتا ہوں
جیسے اک اور اضافہ ہوا احسانوں میں

اے وفاؔ اہل زباں کی ہے عنایت یہ بھی
کہ شمار آج ہمارا ہے زباں دانوں میں