دیکھتی آنکھوں نے دیکھا ہے شبستانوں میں
جذبہ مرنے کا ابھی زندہ ہے پروانوں میں
کتنا پر ہول ہے ماحول شب فرقت کا
خون بھی خشک ہوا جاتا ہے شریانوں میں
کام آیا نہ گلا پھاڑنا اے شیخ ترا
نظر آتی ہیں وہی رونقیں مے خانوں میں
ستم تازہ پہ یوں شکر ستم کرتا ہوں
جیسے اک اور اضافہ ہوا احسانوں میں
اے وفاؔ اہل زباں کی ہے عنایت یہ بھی
کہ شمار آج ہمارا ہے زباں دانوں میں
غزل
دیکھتی آنکھوں نے دیکھا ہے شبستانوں میں
میلہ رام وفاؔ