EN हिंदी
دیکھتے ہیں نہ ٹھہر جاتے ہیں | شیح شیری
dekhte hain na Thahar jate hain

غزل

دیکھتے ہیں نہ ٹھہر جاتے ہیں

سیمان نوید

;

دیکھتے ہیں نہ ٹھہر جاتے ہیں
لوگ رستے سے گزر جاتے ہیں

کتنے دریا ہیں مگر آخر میں
اک سمندر میں اتر جاتے ہیں

دیکھنے کون ہمیں آتا ہے
ڈھونڈنے کس کو ادھر جاتے ہیں

دل کی وحشت بھی عجب وحشت ہے
ساتھ رہتی ہے جدھر جاتے ہیں

منزلیں گرد میں کھو جاتی ہیں
راستے دھوپ سے بھر جاتے ہیں

دن نکلتا ہے کہاں سے سیمانؔ
شام کے سائے کدھر جاتے ہیں