دیکھتے ہیں جب کبھی ایمان میں نقصان شیخ
اونے پونے بیچ ڈالا کرتے ہیں ایمان شیخ
بعد مدت کے جہاں میں رہزنوں کے دن پھرے
سنتے ہیں پھر ہو گئے ہیں اب پولس کپتان شیخ
ہر زباں پر ذکر حق اور دل میں ہے یاد بتاں
یہ نہیں کھلتا کہ ہیں انسان یا شیطان شیخ
اہل شر تو آپ کو کہتے ہیں عم محترم
اور شیطاں آپ کو کہتا ہے بھائی جان شیخ
بے تکلف ہاتھ دھو کر بیٹھ جاتے ہیں ضرور
دیکھ لیتے ہیں بچھا جس جا پہ دسترخوان شیخ
شوق ہے لیکن خلاف وضع اپنی جان کر
مول لے کر خود کبھی کھاتے نہیں اک پان شیخ
گو تجاوز کر چکے ہیں آپ بھی سو سال سے
بیاہ کا رکھتے ہیں لیکن آج بھی ارمان شیخ
جب کہ بیمار محبت کا نہیں ممکن علاج
دے رہے ہیں پھونک کر بے کار اسے لوبان شیخ
کید ہو حرص و ہوس ہو یا فریب و مکر ہو
آپ ہی کے ہاتھ رہتا ہے ہر اک میدان شیخ
شوقؔ صاحب ان کی رگ رگ سے ہیں واقف خوب ہم
اس کا ہو جائے دوالہ جس کے ہوں مہمان شیخ
غزل
دیکھتے ہیں جب کبھی ایمان میں نقصان شیخ
شوق بہرائچی