دیکھتے دیکھتے جب موت ستارے کی ہوئی
پھر کوئی صبح کہاں خواب کے مارے کی ہوئی
وہ مہاجر تھا مہاجر کا مہاجر ہی رہا
کب ترے شہر میں تدبیر گزارے کی ہوئی
اس کے فرمان سبھی دل کی سیاہی نے لکھے
ایسی توہین کہاں نور نظارے کی ہوئی
بجھتے بجھتے بھی ہوئی آتش جاں تیز بہت
اور جو رسم تھی باقی وہ شرارے کی ہوئی
زندگی بھی کسی بازار کی عورت کی طرح
نہ بیاہے کی ہوئی اور نہ کنوارے کی ہوئی
کیا سناؤں تجھے روداد سفر کیسی ہے
دھوپ آمد کی ہوئی چھاؤں خسارے کی ہوئی
یوں تو وہ چاند بھی بے داغ نہیں تھا خورشیدؔ
اور مجھ سے بھی خطا ایک اشارے کی ہوئی
غزل
دیکھتے دیکھتے جب موت ستارے کی ہوئی
خورشید اکبر