دیکھتا کچھ ہوں دھیان میں کچھ ہے
ہے یقیں کچھ گمان میں کچھ ہے
صنم اپنے کو ہم خدا جو کہیں
کب قصور اس کی شان میں کچھ ہے
کچھ نہ دیکھا کسی مکان میں ہم
کہتے ہیں لا مکان میں کچھ ہے
تشنۂ خوں ہیں لعل لب تیرے
سرخیٔ رنگ پان میں کچھ ہے
تیرے دیدار کی ہوس کے سوا
دیکھ تو میری جان میں کچھ ہے
تو جو تلوار کھینچے ہے مجھ پر
زخم بھی درمیان میں کچھ ہے
دیکھ تو اب جفا کشی کی تاب
مجھ دل ناتوان میں کچھ ہے
دیکھ کر مجھ کو نزع میں تو نے
نہ کہا اس جوان میں کچھ ہے
ہم کو پٹکا زمین کے اوپر
گردش آسمان میں کچھ ہے
فائدہ تجھ کو اے زخود غافل
فکر سود و زیان میں کچھ ہے
یہ زمانہ محبؔ بقول دردؔ
آن میں کچھ ہے آن میں کچھ ہے
غزل
دیکھتا کچھ ہوں دھیان میں کچھ ہے
ولی اللہ محب