دیکھو تو ذرا غضب خدا کا
ظالم نے مجھی کو پہلے تاکا
اللہ عطا کرے قناعت
نسخہ واجب الادا کا
دل دیتا ہوں مفت اور کوئی
پرساں نہیں نقد ناروا کا
واں مجھ پہ جفائیں ہو رہی ہیں
یاں ورد ہے لفظ مرحبا کا
آنا ہو تو نزع میں ہوں آؤ
یہ وقت نہیں ہے التوا کا
اب آئے ہو بن کے تم مسیحا
جب وقت گزر چکا دوا کا
دامن میں رواں ہیں اشک گلگوں
محضر ہے یہ خون مدعا کا
لایا تو ہے ان کو جذب الفت
آیا تو ہے دھیان بے نوا کا
میں ہو ہی چکا تھا زندہ درگور
تم آ گئے شکر ہے خدا کا
دنیا سے گزر چکے تو پرویںؔ
جھگڑا نہ رہا فنا بقا کا

غزل
دیکھو تو ذرا غضب خدا کا
پروین ام مشتاق