دیکھو تو میرے نالہ و آہ و فغاں کی اور
بان اس کڑک سے جاوے ہے کب آسماں کی اور
مسجد کو چھوڑ آئے کلیسائیاں کی اور
چھوڑا نواح کعبہ چلے ہم بتاں کی اور
زاہد ترے کمال پہ ماریں ہیں پشت پا
لائے فرو سر اپنا جو پیر مغاں کی اور
سکھ نیند بے خودی کی اسے ترت آ گئی
لاگا جو گوش ٹک بھی مری داستاں کی اور
ٹکڑے جگر کے بہہ چلے ہمراہ سیل اشک
لاتا ہے کھینچ خار و خس آب رواں کی اور
ظالم سلاح باندھ کے آنا بہ قصد قتل
کیا ہے ضرور، اپنے کسی نیم جاں کی اور
کچھ کم نہیں تری نگہ و ابرو و مژہ
مت ہاتھ لا تو خنجر و تیغ و سناں کی اور
تیری نگاہ مہر نے مجھ سے وہ کچھ کیا
جو کچھ کہ چشم ماہ کرے ہے کتاں کی اور
ان انکھڑیوں کی پتلیوں سے آنکھ جا لگی
جا پھرتی نئیں نگاہ اب ان ابرواں کی اور
مصرع یہ اپنا آیا جہاں دارؔ ہم کو یاد
چھوڑا نواح کعبہ چلے ہم بتاں کی اور
غزل
دیکھو تو میرے نالہ و آہ و فغاں کی اور
مرزا جواں بخت جہاں دار