دیکھنے والے کو باہر سے گماں ہوتا نہیں
آگ کچھ ایسے لگائی ہے دھواں ہوتا نہیں
اپنے ہونے کی خبر دیتا ہے خوشبو سے مجھے
پھیلتا ہے چار سو اور درمیاں ہوتا نہیں
روشنی کر دے تماشا گاہ سے دہشت مٹے
کہر اتنا ہے کہ پس منظر عیاں ہوتا نہیں
سوچنا چاہو تو زیر پا ملے ہفت آسماں
دیکھنا چاہو تو زینے کا نشاں ہوتا نہیں
منتظر رہنے سے حامدؔ قفل کو ضربیں لگا
آپ ہی کھل جائے در ایسا یہاں ہوتا نہیں

غزل
دیکھنے والے کو باہر سے گماں ہوتا نہیں
حامد جیلانی