دیکھنا جن صورتوں کا شکل تھی آرام کی
ان سے ہیں مسدود راہیں نامہ و پیغام کی
رخصت اے اہل وطن اب ہم ہیں اور آوارگی
حق رکھے بنیاد قائم گردش ایام کی
یاد نے ان تنگ کوچوں کی فضا صحرا کی دیکھ
ہر قدم پر جان ماری ہے دل ناکام کی
گردش چشم بتاں کہ بسکہ ساغر نوش ہے
گردش گردوں کو ہم کہتے تھے گردش جام کی
جب سے کھینچا لطفؔ رنج فرقت یار و دیار
اب ہوئی معلوم محنت گردش ایام کی
غزل
دیکھنا جن صورتوں کا شکل تھی آرام کی
مرزا علی لطف