EN हिंदी
دیکھنا جن صورتوں کا شکل تھی آرام کی | شیح شیری
dekhna jin suraton ka shakl thi aaram ki

غزل

دیکھنا جن صورتوں کا شکل تھی آرام کی

مرزا علی لطف

;

دیکھنا جن صورتوں کا شکل تھی آرام کی
ان سے ہیں مسدود راہیں نامہ و پیغام کی

رخصت اے اہل وطن اب ہم ہیں اور آوارگی
حق رکھے بنیاد قائم گردش ایام کی

یاد نے ان تنگ کوچوں کی فضا صحرا کی دیکھ
ہر قدم پر جان ماری ہے دل ناکام کی

گردش چشم بتاں کہ بسکہ ساغر نوش ہے
گردش‌ گردوں کو ہم کہتے تھے گردش جام کی

جب سے کھینچا لطفؔ رنج فرقت یار و دیار
اب ہوئی معلوم محنت گردش ایام کی