دیکھنا ہے کب زمیں کو خالی کر جاتا ہے دن
اس قدر آتا نہیں ہے جس قدر جاتا ہے دن
منتشر چلیے کہ یوں بازار بھر جاتا تو ہے
مشتہر کیجے کہ پھر اچھا گزر جاتا ہے دن
جب ذرا رد و بدل ہوتا ہے اس تعمیر میں
باہر آ جاتی ہے رات اندر اتر جاتا ہے دن
دن کی اپنی مستقل کوئی نہیں تاریخ درد
زخم پر جاتا تھا اور اب داغ پر جاتا ہے دن
اچھی گنجائش نکل آتی ہے شام اور شور کی
جب کھنکتے خالی انسانوں سے بھر جاتا ہے دن
جاتے جاتے چھوڑ جاتا ہے مرے دل پر لکیر
دو اندھیروں میں مجھے تقسیم کر جاتا ہے دن

غزل
دیکھنا ہے کب زمیں کو خالی کر جاتا ہے دن
شاہین عباس