دیکھنا بھی تو انہیں دور سے دیکھا کرنا
شیوۂ عشق نہیں حسن کو رسوا کرنا
اک نظر بھی تری کافی تھی پئے راحت جاں
کچھ بھی دشوار نہ تھا مجھ کو شکیبا کرنا
ان کو یاں وعدے پہ آ لینے دے اے ابر بہار
جس قدر چاہنا پھر بعد میں برسا کرنا
شام ہو یا کہ سحر یاد انہیں کی رکھنی
دن ہو یا رات ہمیں ذکر انہیں کا کرنا
صوم زاہد کو مبارک رہے عابد کو صلوٰۃ
عاصیوں کو تری رحمت پہ بھروسا کرنا
عاشقو حسن جفاکار کا شکوہ ہے گناہ
تم خبردار خبردار نہ ایسا کرنا
کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ کیا ہے حسرتؔ
ان سے مل کر بھی نہ اظہار تمنا کرنا
غزل
دیکھنا بھی تو انہیں دور سے دیکھا کرنا
حسرتؔ موہانی