دیکھیے کیا کیا ستم موسم کی من مانی کے ہیں
کیسے کیسے خشک خطے منتظر پانی کے ہیں
کیا تماشا ہے کہ ہم سے اک قدم اٹھتا نہیں
اور جتنے مرحلے باقی ہیں آسانی کے ہیں
وہ بہت سفاک سی دھومیں مچا کر چل دیا
اور اب جھگڑے یہاں اس شخص طوفانی کے ہیں
اک عدم تاثیر لہجہ ہے مری ہر بات کا
اور جانے کتنے پہلو میری ویرانی کے ہیں
اس کی عادت ہے گھرے رہنا دھوئیں کے جال میں
اس کے سارے روگ اک اندھی پریشانی کے ہیں
غزل
دیکھیے کیا کیا ستم موسم کی من مانی کے ہیں
راجیندر منچندا بانی