EN हिंदी
دیکھیے ہو گئی بد نام مسیحائی بھی | شیح شیری
dekhiye ho gai badnam masihai bhi

غزل

دیکھیے ہو گئی بد نام مسیحائی بھی

قمر جلالوی

;

دیکھیے ہو گئی بد نام مسیحائی بھی
ہم نہ کہتے تھے کہ ٹلتی ہے کہیں آئی بھی

حسن خوددار ہو تو باعث شہرت ہے ضرور
لیکن ان باتوں میں ہو جاتی ہے رسوائی بھی

سینکڑوں رنج و الم درد و مصیبت شب غم
کتنی ہنگامہ طلب ہے مری تنہائی بھی

تم بھی دیوانے کے کہنے کا برا مان گئے
ہوش کی بات کہیں کرتے ہیں سودائی بھی

بال و پر دیکھ تو لو اپنے اسیران قفس
کیا کرو گے جو گلستاں میں بہار آئی بھی

پاؤں وحشت میں کہیں رکتے ہیں دیوانوں کے
توڑ ڈالیں گے یہ زنجیر جو پہنائی بھی

اے مرے دیکھنے والے تری صورت پہ نثار
کاش ہوتی تیری تصویر میں گویائی بھی

اے قمرؔ وہ نہ ہوئی دیکھیے تقدیر کی بات
چاندنی رات جو قسمت سے کبھی آئی بھی