EN हिंदी
دیکھیے حالات کے جوگی کا کب ٹوٹے شراپ | شیح شیری
dekhiye haalat ke jogi ka kab TuTe sharap

غزل

دیکھیے حالات کے جوگی کا کب ٹوٹے شراپ

فصیح اکمل

;

دیکھیے حالات کے جوگی کا کب ٹوٹے شراپ
شاید اب اس عہد میں اس سے نہ ہو میرا ملاپ

صاحب امروز افسردہ مزاج و مشتعل
گردش حالات کو پیمانۂ فردا سے ناپ

سایۂ افکار میں کانٹے سہی چھاؤں تو ہو
ذہن کی آغوش سے باہر نکلنا اب ہے پاپ

دل سے ذوق جرم محنت کہہ رہا ہے بار بار
آتش احساس کے شعلوں سے بھی کچھ دیر تاپ

آئینہ کے سامنے آتے ہوئے ڈرتے ہیں کیوں
آئینہ سازوں کا عنوان تمنا جب ہیں آپ

اپنی سانسوں کو جلا دے اپنے دل کو توڑ دے
وقت کے مصروف سادھو کے لبوں پر ہے یہ جاپ