دیکھیں تجھے نہ آویں گے ہم
کہنا نہیں کر دکھاویں گے ہم
یہ جور کوئی اٹھاوے کب تک
اٹھ در ہی سے تیرے جاویں گے ہم
گھر سے مجھے مت نکال سن رکھ
جاویں گے تو پھر نہ آویں گے ہم
تو قطع نظر تو ہم سے کر دیکھ
نظروں سے تجھے گراویں گے ہم
دو دن کبھو ترے گھر نہ آویں
گھر اپنے تجھے بلاویں گے ہم
گھر اس کا تو ڈھونڈ کر کے پایا
یارب اسے گھر بھی پاویں گے ہم
اغماض کرے ہے سب سمجھ کر
کیا حال اسے سناویں گے ہم
بوسے تو دیے ہیں تیں تو ہنس ہنس
گالی تری کیوں نہ کھاویں گے ہم
اتنی بھی پکا نہ میری چھاتی
اے غیر تجھے رجھاویں گے ہم
دل وہ تجھے پوچھے یا نہ پوچھے
پر یاد تری دلاویں گے ہم
تاب اس کی جفاؤں کی کسی طرح
حسرتؔ اب تو نہ لاویں گے ہم
غزل
دیکھیں تجھے نہ آویں گے ہم
حسرتؔ عظیم آبادی