EN हिंदी
دیکھیں آئینے کے مانند سہیں غم کی طرح | شیح شیری
dekhen aaine ke manind sahen gham ki tarah

غزل

دیکھیں آئینے کے مانند سہیں غم کی طرح

ضیا جالندھری

;

دیکھیں آئینے کے مانند سہیں غم کی طرح
ہم کہ ہیں بزم گل و لالہ میں شبنم کی طرح

وقت بے مہر ہے اس فرصت کمیاب میں تم
میری آنکھوں میں رہو خواب مجسم کی طرح

عرصۂ عمر میں کیا کیا نہ رتیں آئیں مگر
کوئی ٹھہری نہ یہاں درد کے موسم کی طرح

کس طرح اس سے کہوں زخم بھی ہیں اس کی عطا
ہاتھ جس کا مرے سینے پہ ہے مرہم کی طرح

میں نے چاہا تھا کہ اک جست میں پہنچوں لیکن
راہ میں سنگ تھے البتہ و تاہم کی طرح

تیرا احساں ہے کہ شاداب رہا کنج خیال
دل پر خوں کی طرح دیدۂ پر نم کی طرح

اس کی گفتار نے چھوڑا نہ کہیں کا ہم کو
ذائقہ شہد سا تھا اور اثر سم کی طرح

لوگ تسلیم سے تخریب تک آ پہنچے ہیں
ڈالنے نکلے ہیں اک اور ہی عالم کی طرح

سعیٔ اظہار ضیاؔ کانچ کے ٹوٹے ہوئے لفظ
آرزوئیں ہیں کسی محفل برہم کی طرح