دیکھے کوئی جو چاک گریباں کے پار بھی
آئینۂ خزاں میں ہے عکس بہار بھی
اب ہر نفس ہے بھیگی صداؤں کی اک فصیل
موج ہوس تھی گردش لیل و نہار بھی
کیا شورش جنوں ہے ذرا کم نہیں ہوا
قربت کے باوجود ترا انتظار بھی
کتنی عقیدتوں کے جگر چاک ہو گئے
کیا سحر تھا شعور نظر کا خمار بھی
جو عرش و فرش پر کبھی آیا نہیں نظر
دیکھا ہے اس کو ہم نے سر رہ گزار بھی
وہ شور حسن تھا دم نظارۂ جمال
ہم سن سکے نہ اپنے بدن کی پکار بھی
فارغؔ خیال یار سے میں ہم سبو رہا
گزری ہے میکدے میں شب انتظار بھی
غزل
دیکھے کوئی جو چاک گریباں کے پار بھی
فارغ بخاری