دیکھا اسے دلگیر تو دلگیر ہوا میں
کس درد کا رشتہ تھا کہ زنجیر ہوا میں
جس خاک کا پیوند ہوئے نوحہ گر حرف
اس خاک کی تاثیر سے اکسیر ہوا میں
اے باد تر و تازہ مجھے غور سے پڑھ لے
قرطاس پذیرائی پہ تحریر ہوا میں
کس حیرت آئینہ کے نخچیر ہیں دونوں
تصویر ہوا وہ کبھی تصویر ہوا میں
سو بار جو اندر سے میں ٹوٹا ہوں تو اک بار
باہر سے نظر آیا کہ تعمیر ہوا میں
جو میں نے کبھی نیند میں دیکھا ہی نہیں تھا
دکھ یہ ہے کہ اس خواب کی تعبیر ہوا میں
کس ہجر سے گزرا ہوں کہ بے ساختہ محسنؔ
لیلائے تمنا سے بغل گیر ہوا میں
غزل
دیکھا اسے دلگیر تو دلگیر ہوا میں
محسن احسان