EN हिंदी
دیکھا اسے دلگیر تو دلگیر ہوا میں | شیح شیری
dekha use dil-gir to dil-gir hua main

غزل

دیکھا اسے دلگیر تو دلگیر ہوا میں

محسن احسان

;

دیکھا اسے دلگیر تو دلگیر ہوا میں
کس درد کا رشتہ تھا کہ زنجیر ہوا میں

جس خاک کا پیوند ہوئے نوحہ گر حرف
اس خاک کی تاثیر سے اکسیر ہوا میں

اے باد تر و تازہ مجھے غور سے پڑھ لے
قرطاس پذیرائی پہ تحریر ہوا میں

کس حیرت آئینہ کے نخچیر ہیں دونوں
تصویر ہوا وہ کبھی تصویر ہوا میں

سو بار جو اندر سے میں ٹوٹا ہوں تو اک بار
باہر سے نظر آیا کہ تعمیر ہوا میں

جو میں نے کبھی نیند میں دیکھا ہی نہیں تھا
دکھ یہ ہے کہ اس خواب کی تعبیر ہوا میں

کس ہجر سے گزرا ہوں کہ بے ساختہ محسنؔ
لیلائے تمنا سے بغل گیر ہوا میں