دیکھا تو کوئی اور تھا سوچا تو کوئی اور
جب آ کے ملا اور تھا چاہا تو کوئی اور
اس شخص کے چہرے میں کئی رنگ چھپے تھے
چپ تھا تو کوئی اور تھا بولا تو کوئی اور
دو چار قدم پر ہی بدلتے ہوئے دیکھا
ٹھہرا تو کوئی اور تھا گزرا تو کوئی اور
تم جان کے بھی اس کو نہ پہچان سکو گے
انجانے میں وہ اور ہے جانا تو کوئی اور
الجھن میں ہوں کھو دوں کہ اسے پا لوں کروں کیا
کھونے پہ وہ کچھ اور ہے پایا تو کوئی اور
دشمن بھی ہے ہم راز بھی انجان بھی ہے وہ
کیا اشکؔ نے سمجھا اسے وہ تھا تو کوئی اور
غزل
دیکھا تو کوئی اور تھا سوچا تو کوئی اور
ابراہیم اشکؔ