EN हिंदी
دیکھا نہیں دیکھے ہوئے منظر کے سوا کچھ | شیح شیری
dekha nahin dekhe hue manzar ke siwa kuchh

غزل

دیکھا نہیں دیکھے ہوئے منظر کے سوا کچھ

نشتر خانقاہی

;

دیکھا نہیں دیکھے ہوئے منظر کے سوا کچھ
حاصل نہ ہوا سیر مکرر کے سوا کچھ

مدت سے ہے معمورۂ بازار غریباں
یہ شہر نہ تھا جس میں ترے گھر کے سوا کچھ

کس حال میں اس شوخ سے وابستہ ہوا دل
سوغات میں دینے کو نہیں سر کے سوا کچھ

وہ غرفہ نشینی ہے نہ ہے شہر نوردی
باقی نہ رہا ہجر میں بستر کے سوا کچھ

پھولوں سے بدن ڈوبتے دیکھے گئے اکثر
اس بحر میں تیرا نہیں پتھر کے سوا کچھ

کرتے بھی طلب کیا کیا یہاں دشت عطا میں
دینے کو نہ تھا جنس میسر کے سوا کچھ