دیکھ اس پری سے کیجئے کیا اب تو جا لگی
چھوٹی ہی کوئی بات ہے پھر یہ بلا لگی
اس لب پہ دیکھتے ہی سے وہ پان کی دھڑی
شام و شفق ان آنکھوں میں کب خوش نما لگی
یہ دسترس کسے کہ کرے اس کو دست بوس
سو منتوں سے پاؤں میں اس کے حنا لگی
میں کیا کیا کہ مجھ کو نکالے ہے وہ صنم
اے اہل بزم کوئی تو بولو خدا لگی
گولی تھی یا خدنگ تھی ظالم تری نگاہ
چھٹتے ہی دل کو توڑ کلیجہ میں آ لگی
کس طرح حال دل کہوں اس گل سے باغ میں
پھرتی ہے اس کے ساتھ تو ہر دم صبا لگی
اس درد دل کا پوچھئے کس سے علاج جا
اپنی سی کر چکے پہ نہ کوئی دوا لگی
آیا جو مہرباں ہو ستم گر تو اس طرف
کس وقت کی نہ جانئے تجھ کو دعا لگی
اتنا تو وہ نہیں ہے کہ بیدارؔ دیجے دل
کیا جانے پیاری اس کی تجھے کیا ادا لگی
غزل
دیکھ اس پری سے کیجئے کیا اب تو جا لگی
میر محمدی بیدار