EN हिंदी
دیکھ اس پری سے کیجئے کیا اب تو جا لگی | شیح شیری
dekh us pari se kijiye kya ab to ja lagi

غزل

دیکھ اس پری سے کیجئے کیا اب تو جا لگی

میر محمدی بیدار

;

دیکھ اس پری سے کیجئے کیا اب تو جا لگی
چھوٹی ہی کوئی بات ہے پھر یہ بلا لگی

اس لب پہ دیکھتے ہی سے وہ پان کی دھڑی
شام و شفق ان آنکھوں میں کب خوش نما لگی

یہ دسترس کسے کہ کرے اس کو دست بوس
سو منتوں سے پاؤں میں اس کے حنا لگی

میں کیا کیا کہ مجھ کو نکالے ہے وہ صنم
اے اہل بزم کوئی تو بولو خدا لگی

گولی تھی یا خدنگ تھی ظالم تری نگاہ
چھٹتے ہی دل کو توڑ کلیجہ میں آ لگی

کس طرح حال دل کہوں اس گل سے باغ میں
پھرتی ہے اس کے ساتھ تو ہر دم صبا لگی

اس درد دل کا پوچھئے کس سے علاج جا
اپنی سی کر چکے پہ نہ کوئی دوا لگی

آیا جو مہرباں ہو ستم گر تو اس طرف
کس وقت کی نہ جانئے تجھ کو دعا لگی

اتنا تو وہ نہیں ہے کہ بیدارؔ دیجے دل
کیا جانے پیاری اس کی تجھے کیا ادا لگی