دیکھ پائے تو کرے کوئی پذیرائی بھی
میں تماشا بھی ہوں اور اس کا تماشائی بھی
کون سمجھے مری آبادی و ویرانی کو
جھیل کی سطح پہ کشتی بھی ہے اور کائی بھی
قفس وصل میں سب شور ہمارا تو نہیں
پھڑپھڑاتا ہے بہت طائر تنہائی بھی
اب اداسی کسی دیرینہ نشے کے مانند
میری کمزوری بھی ہے اور توانائی بھی
کتنی لہریں تھیں جو مشترکہ تھیں ہم دونوں میں
سو ترے ساتھ ہوئی کم مری گہرائی بھی
اب میں کانوں پہ رکھوں ہاتھ کہ آنکھوں پہ رکھوں
شور اتنا ہے کہ لے جائے گا بینائی بھی
بانسری کی وہی آواز سناتے ہیں مجھے
ڈھول بھی پیانو بھی سارنگی بھی شہنائی بھی
میں نے تحفے میں نئے رنج کی چادر شارقؔ
صرف لائی ہی نہیں خود اسے پہنائی بھی
غزل
دیکھ پائے تو کرے کوئی پذیرائی بھی
سعید شارق