دیکھ نہ پایا جس پیکر کو وعدوں کی انگنائی میں
ڈھونڈ رہا ہوں اس کا چہرہ خوابوں میں تنہائی میں
کیسے ہو معلوم یہ آخر پروائی کے جھونکوں کو
پھولوں پر کیا بیت چکی ہے شاخوں کی انگڑائی میں
ڈھلتے سورج کی آنکھوں نے آخر مجھ کو ڈھونڈ لیا
چھپ نہ سکا میں بھی پیپل کے سائے کی لمبائی میں
پا کر تیری سانس کی آہٹ دل یوں مچلا جائے ہے
جیسے شور مچائے گاگر پنگھٹ کی گہرائی میں
ہر اک شخص کے آگے کروں کیوں شکوے کی دیوار کھڑی
صرف اک تیرا ہاتھ ہے میرے لہجے کی رسوائی میں
شارقؔ ڈال دو آنکھوں پر تم اپنی پلکوں کا یہ غلاف
سارا شہر پہنچ گیا ہے سناٹے کی کھائی میں
غزل
دیکھ نہ پایا جس پیکر کو وعدوں کی انگنائی میں
شارق جمال