دیکھ لو تم خوئے آتش اے قمر شیشہ میں ہے
عکس داغ مہر کا اتنا اثر شیشہ میں ہے
لوگ کہتے ہیں ترے رخسار تاباں دیکھ کر
شمع ہے فانوس میں یا آب زر شیشہ میں ہے
رات دن رہتی ہے نیت بادۂ گل رنگ میں
یہ پری وہ ہے کہ جو آٹھوں پہر شیشہ میں ہے
ساعد سیمیں سے تیرے اس کو کیا نسبت بھلا
توبہ توبہ کب لطافت اس قدر شیشہ میں ہے
ہوتی ہے غرق عرق کیوں تو سوائے بوئے گل
اور کیا اے بلبل شوریدہ سر شیشہ میں ہے
مے کدہ تیرا رہے آباد خم کی خیر ہو
ہاں پلا دے مجھ کو ساقی جس قدر شیشہ میں ہے
خاک سے میری بھلا کیا وقت کا ہو امتیاز
ہر گھڑی بن کر بگولا منتشر شیشہ میں ہے
یہ گماں ہوتا ہے عکس مہر صہبا دیکھ کر
داغ الفت کو لئے خون جگر شیشہ میں ہے
حضرت واعظ نہ ایسا وقت ہاتھ آئے گا پھر
سب ہیں بے خود تم بھی پی لو کچھ اگر شیشہ میں ہے
کھنچ سکے ہرگز مصور سے نہ تمثال عدم
دیکھ لو تصویر جاناں تا کمر شیشہ میں ہے
تھوڑی تھوڑی راہ میں پی لیں گے گر کم ہے تو کیا
دور ہے مے خانہ یہ زاد سفر شیشہ میں ہے
مے پلا کر مجھ سے کہتے ہیں وہ ہو کر بے حجاب
چڑھ گئی آنکھوں پہ جب عینک نظر شیشہ میں ہے
کیوں نہ زور طبع سب احباب دکھلائیں حبیبؔ
امتحان حسن نظم یک دگر شیشہ میں ہے
غزل
دیکھ لو تم خوئے آتش اے قمر شیشہ میں ہے
حبیب موسوی