دیکھ لو رنگ گر مرے تل کے
بھول جاؤ گے رنگ جھلمل کے
اک غزل کیا سنا دی محفل میں
با خدا رہ گئے سبھی ہل کے
تو مقلد تھا عقل والوں کا
تو نہ سمجھا معاملے دل کے
کوئی مقصد نہیں ہے ملنے کا
اچھا لگتا ہے آپ سے مل کے
گل بدن کب تو ان کو توڑے گا
پھول تھکنے لگے ہیں کھل کھل کے
زخم کب اس قدر نمایاں تھے
جس قدر ہو گئے ہیں سل سل کے
غزل
دیکھ لو رنگ گر مرے تل کے
ثروت مختار