EN हिंदी
دیکھ لیتے ہیں اب اس بام کو آتے جاتے | شیح شیری
dekh lete hain ab us baam ko aate jate

غزل

دیکھ لیتے ہیں اب اس بام کو آتے جاتے

نصیر ترابی

;

دیکھ لیتے ہیں اب اس بام کو آتے جاتے
یہ بھی آزار چلا جائے گا جاتے جاتے

دل کے سب نقش تھے ہاتھوں کی لکیروں جیسے
نقش پا ہوتے تو ممکن تھا مٹاتے جاتے

تھی کبھی راہ جو ہمراہ گزرنے والی
اب حذر ہوتا ہے اس راہ سے آتے جاتے

شہر بے مہر! کبھی ہم کو بھی مہلت دیتا
اک دیا ہم بھی کسی رخ سے جلاتے جاتے

پارۂ ابر گریزاں تھے کہ موسم اپنے
دور بھی رہتے مگر پاس بھی آتے جاتے

ہر گھڑی ایک جدا غم ہے جدائی اس کی
غم کی میعاد بھی وہ لے گیا جاتے جاتے

اس کے کوچے میں بھی ہو، راہ سے بے راہ نصیرؔ
اتنے آئے تھے تو آواز لگاتے جاتے