دیکھ کیا تیری جدائی میں ہے حالت میری
کوئی پہچان نہیں سکتا ہے صورت میری
میں ترے حسن کا خلوت میں تماشائی ہوں
آئینہ سیکھ نہ جائے کہیں حیرت میری
آپ نے قتل کیا خیر گلہ مجھ کو نہیں
اپنے کوچہ میں تو بنوایئے تربت میری
خط پیشانی میں سفاک ازل کے دن سے
تیری تلوار سے لکھی ہے شہادت میری
دے کے اک بوسہ عجب ناز سے دلبر نے کہا
اے شبابؔ آج یہ تجھ پر ہے عنایت میری
غزل
دیکھ کیا تیری جدائی میں ہے حالت میری
شباب