EN हिंदी
دیکھ کر اٹھتا ہوا شوق کا سر یعنی تو | شیح شیری
dekh kar uThta hua shauq ka sar yani tu

غزل

دیکھ کر اٹھتا ہوا شوق کا سر یعنی تو

نبیل احمد نبیل

;

دیکھ کر اٹھتا ہوا شوق کا سر یعنی تو
کاٹ ڈالے گا مرا دست ہنر یعنی تو

میری تقدیر میں لکھے گا اندھیروں کا سکوت
روند ڈالے گا مری تازہ سحر یعنی تو

بس یہی ہے مرے دامان سفر میں اب تو
میری منزل ہے مری راہ گزر یعنی تو

جب بھی آئے گا سوا نیزے پہ خورشید غضب
پھولنے پھلنے نہیں دے گا شجر یعنی تو

مجھ کو معلوم ہے اے دوست اٹھا لیتا ہے
میرے حصے کے سبھی برگ و ثمر یعنی تو

تیرے تیور یہ بتاتے ہیں اے جانے والے
لوٹ کے اب نہ کبھی آئے گا گھر یعنی تو

یہ گزارش ہے مری تجھ سے گزارش میری
میری نس نس میں اتر تو ہی اتر یعنی تو

خوشبوئے گل کی طرح رنگ شفق کی صورت
دل کے آنگن میں بکھر اور بکھر یعنی تو

نکھرا نکھرا سا ہے امید کا موسم یوں بھی
شاخ امید پہ کچھ اور سنور اور سنور یعنی تو

راہ الفت میں مجھے تیری قسم جان نبیلؔ
ہے مرے پیش نظر پیش نظر یعنی تو