دیکھ کر اس کو مجھے دھچکا لگا
مثل دریا تھا مگر پیاسا لگا
نفرتوں کی دھند میں لپٹا لگا
آئنے کا نقش بھی جھوٹا لگا
سخت جاں تھے بچ گئے اس بار بھی
زخم اب کے بھی ہمیں گہرا لگا
پورے قد سے ایستادہ جب ہوئے
شہر کا ہر شخص پھر بونا لگا
کس کی چھاؤں سائباں کرتے شفیقؔ
ہر شجر پر خوف کا سایہ لگا

غزل
دیکھ کر اس کو مجھے دھچکا لگا
شفیق سلیمی