دیکھ کر روئے صنم کو نہ بہل جاؤں گا
مرتے دم لے کے سنبھالا تو سنبھل جاؤں گا
تن کفن پوش تو ہو اور ہی پیراہن میں
اجلے کپڑے میں بدلتے ہی بدل جاؤں گا
چمن دہر میں وہ برگ خزانی ہوں میں
گر نہ برباد ہوا آگ میں جل جاؤں گا
ہوں وہ ثابت قدم اے چرخ جو بھونچال بھی آئے
چاہے ٹل جائے زمیں میں نہیں ٹل جاؤں گا
میں وہ افتادۂ چشم و نظر عالم ہوں
پاؤں پکڑے گی زمیں بھی تو پھسل جاؤں گا
ساز و سامان طرب کچھ نہ اگر ہاتھ آیا
جھانجھ ہو کر کف افسوس ہی مل جاؤں گا
شادؔ بہکوں نہ کبھی نشۂ دولت ہو ہزار
کچھ میں کم ظرف نہیں ہوں جو ابل جاؤں گا
غزل
دیکھ کر روئے صنم کو نہ بہل جاؤں گا
شاد لکھنوی