دیکھ کر مقتل میں خنجر اس ستم ایجاد کا
موت بولی آج موقع ہے مبارک باد کا
یہ تغافل وجہ تسکیں ہے دل ناشاد کا
بھول جانا بھی تمہارا اک سبب ہے یاد کا
پیکر انداز کس کا کھنچتے کھنچتے رہ گیا
آج کیوں اترا ہے چہرہ مانی و بہزاد کا
ہم کو کچھ دوزخ سے مطلب ہے نہ جنت سے غرض
ہے بجا لانا مقدم آپ کے ارشاد کا
کس کے جذب حسن نے تاثیر ساری چھین لی
آج کیوں خالی ہے گوشہ دامن فریاد کا
یا الٰہی اس دل بیتاب کی تعمیر میں
کس نے پتھر رکھ دیا تھا عشق کی بنیاد کا
منتوں پر میری کہتے ہیں وہ کس انداز سے
کیونکہ ہو رشتہ پری زادوں سے آدم زاد کا
داغ دل ہیں یا کوئی گلدستۂ عالم فریب
ہے دل پر داغ یا گلشن کوئی شداد کا
اڑ گئے ہاتھوں کے طوطے جب سے بلبل نے سنا
خوب طوطی بولتا ہے ان دنوں صیاد کا
ان کے کوچہ میں ملا یہ پھل محبت کا مجھے
نام عاشقؔ ہے لقب ہے خانماں برباد کا
غزل
دیکھ کر مقتل میں خنجر اس ستم ایجاد کا
عاشق اکبرآبادی