دیکھ کر کرتی گلے میں سبز دھانی آپ کی
دھان کے بھی کھیت نے اب آن مانی آپ کی
کیا تعجب ہے اگر دیکھے تو مردہ جی اٹھے
چین نیفے کی ڈھلک پیڑو پہ آنی آپ کی
ہم تو کیا ہیں دل فرشتے کا بھی کافر چھین لے
ٹک جھلک دکھلا کے پھر انگیا چھپانی آپ کی
آ پڑے دو سو برس کے مردۂ بے جاں میں جان
جس کے اوپر دو گھڑی ہو مہربانی آپ کی
چھلے غیروں پاس تو وہ خاتم زر اے نگار
ہے ہمارے پاس بھی اب تک نشانی آپ کی
وقت تو جاتا رہا پر بات باقی رہ گئی
ہے یہ جھوٹی دوستی اب ہم نے جانی آپ کی
کیا عجب صورت رقیب رو سیہ کی دیکھ کر
خوف سے حالت ہوئی ہو پانی پانی آپ کی
ایک عالم کوہ کن کی طرح سر پھوڑے گا اب
گر اسی صورت رہی شیری زبانی آپ کی
کیا ہمیں لگتی ہے پیاری جب وہ کہتی ہے نظیرؔ
ہے میاں کچھ ان دنوں نا مہربانی آپ کی
غزل
دیکھ کر کرتی گلے میں سبز دھانی آپ کی
نظیر اکبرآبادی