دیکھ کر ہم کو اسیر آرزو
اور بھی وہ ہو گئے بیگانہ خو
پھاڑ ڈالا دست وحشت نے جسے
پھر کریں کیا اس گریباں کا رفو
پھر سجاؤ محفل دار و رسن
مضطرب ہے پھر زبان گفتگو
گر زیادہ سے زیادہ ہوں گنہ
کم نہیں ہے آیت لا تقنطو
مجھ کو ڈر لگتا ہے اپنے شہر میں
ہیں بہت اونچے یہاں کے کاخ و کو
جب بھی رت آتی ہے پت جھڑ کی یہاں
چوس لیتی ہے بہاروں کا لہو
رہ کے نجمیؔ نے پس پردہ یہاں
کر دیا ہے سب کو محو جستجو
غزل
دیکھ کر ہم کو اسیر آرزو
امجد نجمی