دیکھ کر دل کو پیچ و تاب کے بیچ
آ پڑا مفت میں عذاب کے بیچ
کون رہتا ہے تیرے غم کے سوا
اس دل خانماں خراب کے بیچ
تیرے آتش زدوں نے مثل شرار
عمر کاٹی ہے اضطراب کے بیچ
کیا کہوں تجھ سے اب کے میں تجھ کو
کس طرح دیکھتا ہوں خواب کے بیچ
شمع فانوس میں نہ جب کے چھپے
کب چھپے ہے یہ منہ نقاب کے بیچ
ٹک تبسم نے کی شکر ریزی
بارے اب تلخیٔ عتاب کے بیچ
کیا کہے وہ کہ سب ہویدا ہے
شان تیری تری کتاب کے بیچ
ہے غلامی اثرؔ کو حضرت دردؔ
بہ دل و جاں تری جناب کے بیچ
غزل
دیکھ کر دل کو پیچ و تاب کے بیچ
میر اثر