EN हिंदी
دیکھ جرم و سزا کی بات نہ کر | شیح شیری
dekh jurm-o-saza ki baat na kar

غزل

دیکھ جرم و سزا کی بات نہ کر

دوارکا داس شعلہ

;

دیکھ جرم و سزا کی بات نہ کر
میکدے میں خدا کی بات نہ کر

میں تو بے مہریوں کا عادی ہوں
مجھ سے مہر و وفا کی بات نہ کر

شوق بے مدعا کا مارا ہوں
شوق بے مدعا کی بات نہ کر

وہ تو مدت ہوئی کہ ٹوٹ گیا
میرے دست دعا کی بات نہ کر

جو نہیں اختیار میں میرے
اس بت بے وفا کی بات نہ کر

عشق کی انتہا کو دیکھ ذرا
عشق کی ابتدا کی بات نہ کر

کیا ملا فکر کی رسائی سے
میری فکر رسا کی بات نہ کر

اس کی تقدیر میں خرابی تھی
اس دل مبتلا کی بات نہ کر

جو بھی ہونا تھا ہو گیا شعلہؔ
کرم ناخدا کی بات نہ کر