EN हिंदी
دیکھ دریا ہے کنارے کو سنبھال | شیح شیری
dekh dariya hai kinare ko sambhaal

غزل

دیکھ دریا ہے کنارے کو سنبھال

محبوب خزاں

;

دیکھ دریا ہے کنارے کو سنبھال
یہ محبت یہ محبت کا زوال

اس زمانے کو ترس جائیں گے ہم
آہ یہ تشنگئ ہجر و وصال

میٹھی باتوں سے ادا جاگتی ہے
نرم آنکھوں میں سنورتے ہیں خیال

زخم بگڑے تو بدن کاٹ کے پھینک
ورنہ کانٹا بھی محبت سے نکال

آپ کی یاد بھی آ جاتی ہے
اتنی محروم نہیں بزم خیال

خط جو آیا ہے انہیں کا ہوگا
ہاں ذرا آج طبیعت تھی بحال

ہائے پھر فصل بہار آئی خزاںؔ
کبھی مرنا کبھی جینا ہے محال