دے سکے گا نہ تمہیں پھر کوئی آواز کہیں
میری ہستی کا اگر ٹوٹ گیا ساز کہیں
عشق محکوم سہی بیکس و مجبور سہی
حسن تنہا بھی ہوا ہے اثر انداز کہیں
غم نا قدریٔ دنیا تو نہیں ہے لیکن
نگہ دوست نہ کر دے نظر انداز کہیں
خامیٔ ذوق طلب نے ہمیں رکھا محروم
یہ غلط ہے نہ سنی ہو تری آواز کہیں
بحر ہستی میں جو ابھرا تو ابھارا تو نے
میں ہوا آپ نہ اے دوست سرافراز کہیں
رنگ ماحول چمن سے یہ ہویدا ہے صغیرؔ
کام آئے گی مری جرأت پرواز کہیں

غزل
دے سکے گا نہ تمہیں پھر کوئی آواز کہیں
صغیر احمد صغیر احسنی