دے گیا آخری صدا کوئی
فاصلوں پر بکھر گیا کوئی
رات کا درد بانٹنے کے لئے
رات بھر جاگتا رہا کوئی
ایک سائے کی طرح بے آواز
میرے در پر کھڑا رہا کوئی
آسماں سے پرے بھی کچھ ہوگا
عمر بھر سوچتا رہا کوئی
سوکھ جانے دے ٹوٹ جانے دے
لے اڑے گی مجھے ہوا کوئی
یا بنا دے پہاڑ کا پتھر
یا مجھے راستہ دکھا کوئی
توڑ کر جسم کے در و دیوار
آئنہ میں اتر گیا کوئی
غزل
دے گیا آخری صدا کوئی
عابد عالمی