ہجوم غم ہے قلب غمزدہ ہے
مری محفل مرا خلوت کدہ ہے
ازل سے آج تک کوئی نہ سمجھا
حیات مختصر کیا شعبدہ ہے
بہکنے دے ذرا رندوں کو ساقی
یہی ہنگامہ جان مے کدہ ہے
کہاں دیکھو گے تم اپنی تجلی
جو آئینہ ہے وہ حیرت زدہ ہے
نظر کیا جام و مینا پر اٹھاؤں
نگاہ دوست پورا مے کدہ ہے
ادھر بھی رخ کر اے باران رحمت
ہمارا آشیاں آتش زدہ ہے
مرے پینے پہ پابندی ہے جب سے
صباؔ اجڑا ہوا سا مے کدہ ہے

غزل
ہجوم غم ہے قلب غمزدہ ہے
صبا اکبرآبادی