EN हिंदी
دیار عشق کی شمعیں جلا تو سکتے ہیں | شیح شیری
dayar-e-ishq ki shaMein jala to sakte hain

غزل

دیار عشق کی شمعیں جلا تو سکتے ہیں

اسعد بدایونی

;

دیار عشق کی شمعیں جلا تو سکتے ہیں
خوشی ملے نہ ملے مسکرا تو سکتے ہیں

ہمیشہ وصل میسر ہو یہ ضروری نہیں
دو ایک دن کو ترے پاس آ تو سکتے ہیں

جو راز عشق ہے ان کو چھپائیں گے لیکن
جو داغ عشق ہیں سب کو دکھا تو سکتے ہیں

ہم امتحان میں ناکام ہوں یہ رنج نہیں
اسی میں خوش ہیں کہ وہ آزما تو سکتے ہیں

نسیم صبح کے جھونکے ہیں خوش گوار مگر
کبھی کبھی یہ دلوں کو دکھا تو سکتے ہیں

یہی بہت ہے کہ اس خار زار دنیا میں
تجھے ہم اپنے گلے سے لگا تو سکتے ہیں