دیار حبس میں بجھتے ہوئے چراغوں کو
ذرا سہارا ہوا کا ملے چراغوں کو
بجھے چراغوں کی سرگوشیوں میں خطرہ ہے
ہوا بھی کان لگا کر سنے چراغوں کو
دکھا نہ پائیں جو رستہ کسی مسافر کو
تو کیا کرے کوئی رہ میں پڑے چراغوں کو
تمہارے بس میں نہیں ہے تو روشنی دوں گا
چراغ بن کے جو اترے کہے چراغوں کو
پلٹ کے آئے اندھیروں کو مات دے کر ہم
ہماری راہ میں کوئی رکھے چراغوں کو

غزل
دیار حبس میں بجھتے ہوئے چراغوں کو
صائم جی