دیار دل سے کسی کا گزر ضروری تھا
اجاڑ رستے پہ کوئی شجر ضروری تھا
ذرا سی دیر میں بجھنے کو تھا مگر اس دم
دیے کو چلتی ہوا کا ثمر ضروری تھا
اگر نہ ہوتے یہ دنیا اسی طرح چلتی
ہمارا ہونا جہاں میں مگر ضروری تھا
نظر میں شعر سجاتے غزل سماعت میں
سخن کے شہر میں ایسا نگر ضروری تھا
ہمارے دل میں رہی ہے بس ایک ہی خواہش
دیار یار میں اپنا بھی گھر ضروری تھا
چھلک رہی ہیں مرے روم روم سے خوشیاں
تمہاری بزم کا کچھ تو اثر ضروری تھا

غزل
دیار دل سے کسی کا گزر ضروری تھا
صائم جی