دور صبوحی شعلۂ مینا رقصاں چھاؤں میں تاروں کی
پیر مغاں نے جام اٹھایا عید ہوئی مے خواروں کی
کتنے ہی در کھل جائیں گے جوش جنوں کو بڑھنے دو
بند رہے گا کیا در زنداں خیر نہیں دیواروں کی
کافر عشق سمجھ کر ہم کو کتنے طوفاں اٹھتے ہیں
دل کی بات کو کس سے کہہ دیں بستی ہے دیں داروں کی
پاس ادب سے اک اک کانٹا ہم نے چنا ہے پلکوں سے
آخر کچھ تعظیم تھی لازم دشت وفا کے خاروں کی
کتنے دکھ کے دن بیتے ہیں اس کا بھی تھا ہوش کہاں
اپنے حال کو کچھ سمجھا ہوں صورت سے غم خواروں کی
زلف پریشاں راز کی جویا باد صبا یکسر غماز
بات تری خلوت تک پہنچی ہم وحشی آواروں کی
موسم گل کی رعنائی نے دشت میں ڈیرے ڈالے ہیں
تم بھی روشؔ اب گھر سے نکلو رت آئی ہے بہاروں کی
غزل
دور صبوحی شعلۂ مینا رقصاں چھاؤں میں تاروں کی
روش صدیقی