دور چرخ کبود جاری ہے
جسم و جاں پر جمود طاری ہے
گویا انساں نہیں ہیولیٰ ہوں
میری رگ رگ میں دود ساری ہے
موت ہم سایے میں ہوئی ہے تو کیا
بزم رقص و سرور جاری ہے
دوستوں سے وہ کیا کریں گے سلوک
جن پر اپنا وجود بھاری ہے
ہے تصور میں اک رخ روشن
اور لب پر درود جاری ہے
عمر بھر کھل سکی نہ دل کی گرہ
خوب شغل کشود کاری ہے
بھر نہ پائے گا زخم دل ساحرؔ
ضرب حرف حسود کاری ہے
غزل
دور چرخ کبود جاری ہے
ساحر ہوشیار پوری