EN हिंदी
دور چرخ کبود جاری ہے | شیح شیری
daur-e-charKH-e-kabud jari hai

غزل

دور چرخ کبود جاری ہے

ساحر ہوشیار پوری

;

دور چرخ کبود جاری ہے
جسم و جاں پر جمود طاری ہے

گویا انساں نہیں ہیولیٰ ہوں
میری رگ رگ میں دود ساری ہے

موت ہم سایے میں ہوئی ہے تو کیا
بزم رقص و سرور جاری ہے

دوستوں سے وہ کیا کریں گے سلوک
جن پر اپنا وجود بھاری ہے

ہے تصور میں اک رخ روشن
اور لب پر درود جاری ہے

عمر بھر کھل سکی نہ دل کی گرہ
خوب شغل کشود کاری ہے

بھر نہ پائے گا زخم دل ساحرؔ
ضرب حرف حسود کاری ہے