دوڑتا رہتا ہوں نامعلوم سمتوں کی طرف
دیکھتا ہرگز نہیں پیروں کے چھالوں کی طرف
بستیوں کے لوگ سچ سن کر بہت برہم ہوئے
اب مرا اگلا نشانہ خانقاہوں کی طرف
اب مرے دامن سے الجھی ہیں کٹیلی جھاڑیاں
کیوں نکل آیا تھا گھر سے خار زاروں کی طرف
سخت تنہائی کی وحشت سے مجھے مرنا نہیں
گھر سے گھبرا کر نکل پڑتا ہوں راہوں کی طرف
دیکھنا خورشید عالم تاب کا عالم کہ پھر
ڈھونڈنے نکلا ہے خود کو ماہ پاروں کی طرف
غزل
دوڑتا رہتا ہوں نامعلوم سمتوں کی طرف
جمال اویسی