EN हिंदी
دوڑے وہ میرے قتل کو تلوار کھینچ کر | شیح شیری
dauDe wo mere qatl ko talwar khinch kar

غزل

دوڑے وہ میرے قتل کو تلوار کھینچ کر

رونق ٹونکوی

;

دوڑے وہ میرے قتل کو تلوار کھینچ کر
میں رہ گیا اک آہ شرربار کھینچ کر

گستاخ جذب شوق ہے کتنا غضب کیا
لایا ہے کس کو یوں سر بازار کھینچ کر

ہے ہے خبر بہار کی سنتے ہی مر گیا
اک آہ سرد مرغ گرفتار کھینچ کر

وابستہ اس سے سیکڑوں دل عاشقوں کے ہیں
بند قبا نہ باندھئے زنہار کھینچ کر

گر اپنے آہ و نالہ میں تاثیر کچھ ہوئی
رونقؔ ہم ان کو لائیں گے سو بار کھینچ کر