دستار احتیاط بچا کر نہ آئے گا
کوئی بھی اس گلی سے سبک سر نہ آئے گا
بس ایک جست اور سر کوئے جستجو
پھر راستے میں کوئی سمندر نہ آئے گا
اڑ جائیں گے ہوا میں سبھی نقش نا تمام
اور موسم ہنر بھی پلٹ کر نہ آئے گا
کب تک رہوگے ضد کے احاطے میں خیمہ زن
وہ حد احتیاط سے باہر نہ آئے گا
یوں مطمئن ہیں راستے صحن سکوت کے
جیسے کبھی صداؤں کا لشکر نہ آئے گا
جو کچھ ہے وہ بہت ہے کہ پھر اس نواح میں
اک لمحہ سکوں بھی میسر نہ آئے گا
اخترؔ اب انتظار کی پرچھائیاں سمیٹ
اس دھوپ میں وہ موم کا پیکر نہ آئے گا
غزل
دستار احتیاط بچا کر نہ آئے گا
سلطان اختر