دست شبنم پہ دم شعلہ نوائی نہ رکھو
صبح کی گود میں شب بھر کی کمائی نہ رکھو
میری یادوں کے صنم خانوں سے اٹھنے دو دھواں
میرے سینے پہ ابھی دست حنائی نہ رکھو
جاگ جائے نہ کہیں حسن کا سوتا پندار
دیدۂ شوق میں انداز گدائی نہ رکھو
شب کو رہنے دو یوں ہی شام و سحر کا پیوند
ڈر کے ظلمات سے بنیاد جدائی نہ رکھو
حسن بھی اپنے تقاضوں سے ہے آخر مجبور
حسن کے دوش پہ الزام خدائی نہ رکھو
پھر کسی طور سمیٹو یہ بکھرتے ہوئے رنگ
یوں پریشان تصور کی اکائی نہ رکھو
اپنے وجدان سے بھی کام نکالو کوئی
راہبر ہی کے لیے راہ نمائی نہ رکھو
اپنے زخموں کو چھپاؤ کسی عنوان صمدؔ
رہ گزاروں میں غم آبلہ پائی نہ رکھو

غزل
دست شبنم پہ دم شعلہ نوائی نہ رکھو
صمد انصاری