دست دعا کو کاسۂ سائل سمجھتے ہو
تم دوست ہو تو کیوں نہیں مشکل سمجھتے ہو
سینے پہ ہاتھ رکھ کے بتاؤ مجھے کہ تم
جو کچھ دھڑک رہا ہے اسے دل سمجھتے ہو
ہر شے کو تم نے فرض کیا اور اس کے بعد
سائے کو اپنا مد مقابل سمجھتے ہو
دریا تمہیں سراب دکھائی دیا اور اب
گرد و غبار راہ کو منزل سمجھتے ہو
خوش فہمیوں کی حد ہے کہ پانی میں ریت پر
جو بھی جگہ ملے اسے ساحل سمجھتے ہو
تنہائی جلوہ گاہ تحیر ہے اور تم
ویرانیوں کے رقص کو محفل سمجھتے ہو
جس نے تمہاری نیند پہ پہرے بٹھا دیئے
اپنی طرف سے تم اسے غافل سمجھتے ہو
غزل
دست دعا کو کاسۂ سائل سمجھتے ہو
سلیم کوثر