دست دامن دعا رہے نہ رہے
ہم چلے اب وفا رہے نہ رہے
میں فنا کی ڈگر پہ ہوں یارو
اب کسی کی سزا رہے نہ رہے
آئنے تم تو میرے ساتھ رہو
مجھ میں چاہے ادا رہے نہ رہے
جلنا قسمت میں ہے تو جلنا ہے
چھت پہ کوئی گھٹا رہے نہ رہے
پاؤں ننگے ہیں ہر تمنا کے
سر پہ اب کے ردا رہے نہ رہے
ہو گئی جو خطا تو اب کے برس
مجھ میں کوئی خطا رہے نہ رہے
جل گئی باغ کی امیدیں بھی
اب گلوں میں فضا رہے نہ رہے
میرے زخموں کے دست دامن میں
درد کی اب دوا رہے نہ رہے
بجھ گئے دیپ سب وفاؤں کے
صحن میں اب ہوا رہے نہ رہے
فرق پڑتا ہے کیا بھلا مجھ کو
اس کے دل میں دغا رہے نہ رہے
المیے خوب ہم نے جھیلے ہیں
ڈر نہیں المیہ رہے نہ رہے
گریہ و غم کے آئینے میں ہیں
عکس میں اب عزا رہے نہ رہے
میرے پہلو سے آگ ہے لپٹی
سر پہ باد صبا رہے نہ رہے
لب کھلے ہیں تو کچھ سنو پل بھر
کیوں کے پھر یہ گلا رہے نہ رہے
اب نہ لوٹیں گے پھر کبھی مریمؔ
میرے پیچھے صدا رہے نہ رہے
غزل
دست دامن دعا رہے نہ رہے
مریم ناز